Episode.13
صبح کا سورج آسمان پر سنہری چادر بچھا چکا تھا ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی درختوں کی پتیاں دھیرے دھیرے سرسراتی ہوئی ایک دیھما سا نغمہ چھیڑ رہی تھیں پرندے آسمان میں اڑان بھر رہے تھے اور فضا میں ایک خوشگوار تازگی تھی جیسے سب کچھ آج بہت خاص ہو مہر آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک تھی وہ اب پہلے کی طرح بوجھل اور اداس نہیں لگ رہی تھی اس کی خاموشی میں بھی زندگی کی ہلکی ہلکی رمک دکھائی دے رہی تھی آج وہ خود کو قید میں محسوس نہیں کر رہی تھی کیونکہ اب آتش " اس کا آتش" تھا جو اسے ہر لمحہ یقین دلا رہا تھا کہ وہ صرف اس کا ہے اور ہمیشہ اس کا ہی رہے گا
" چلو آج کہیں باہر چلتے ہیں "
وہ اس کے پیچھے دھیرے سے آ کھڑا ہوا آنکھوں میں نرمی اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے مہر نے چونک کر اسے دیکھا پھر جھٹ سے اثبات میں سر ہلا دیا وہ خوشی سے تیار ہوئی تھی اور اس کے ساتھ چل دی
☆☆☆
سڑکیں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں مگر مہر کو بس ایک ہی شخص نظر آ رہا تھا
"آتش" وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے ارد گرد کی چیزوں کو خوشی سے دیکھ رہی تھی مگر سب سے زیادہ لطف اسے آتش کی موجودگی دے رہی تھی راستے میں اسے ایک گول گپے والے کی ریڑھی نظر آئی اور مہر کے قدم وہیں رک گئے اس کی آنکھوں میں چمک تھی چہرے پر شوخی بھری مسکراہٹ اس نے آتش کی طرف دیکھا اور آنکھوں سے ہی اشارہ کیا کہ وہ گول گپے کھانا چاہتی ہے آتش نے گہری سانس لی اور بے بسی سے مسکرا کر بولا
" یہ سب بھی کرنا پڑے گا"
مہر نے فورا اثبات میں سر ہلا دیا جیسے پہلی فرمائش کی ہو آتش نے سر جھٹک کر گول گپے آرڈر کر دیے مہر نے پہلا گول گپا اس کی طرف بڑھایا مگر آتش نے انکار کر دیا مہر نے ہونٹ بھینچ کر غصے سے اس کو گھورا اور جب آتش نے اسے دیکھ کر پھر انکار کیا تو اس نے زبردستی گول گپا اس کے لبوں کے قریب کر دیا آتش نے ایک گہری اور ترچھی نظر مہر پر ڈالی پھر خاموشی سے گول گپا کھا لیا جیسے ہی اس نے کھایا اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور وہ فورا پانی مانگنے لگا مہر اس کی حالت دیکھ کر ہنسنے لگی اس کی آنکھوں میں خوشی تھی وہ کھلکھلا کر تو نہیں ہنس سکتی تھی مگر اس کی ہنسی کی چمک نے آتش کو مسحور کر دیا تھا
" تمہیں ہنستا دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے "
آتش نے دل ہی دل میں سوچا مگر زبان سے کچھ نہ کہہ پایا
☆☆☆
مہر بازار کی ہر چیز کو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی کہیں تازہ گلاب کے گلدستے رکھے تھے تو کہیں کتابوں کا سٹال تھا تو کہیں گجرے، وہ ہر جگہ رک کر چیزیں دیکھتی مگر آتش کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کچھ خاص چیز کی تلاش میں نہیں بس ان لمحوں کو جینا چاہتی ہے پھر اچانک مہر ایک دکان کے سامنے رک گئی اس کی آنکھیں رنگ برنگی چوڑیوں کو دیکھ کر چمک اٹھی دکان کے شیشے کے پیچھے سینکڑوں چوڑیاں رکھی تھیں لال سبز سنہری نیلی، ہر رنگ کی جیسے قوس قزاح کو قید کر دیا گیا ہو آتش نے غور سے مہر کو دیکھا وہ خاموشی سے چوڑیوں کو تک رہی تھی جیسے وہ اپنے ہاتھوں میں ان کا لمس محسوس کر رہی ہو
" کیا تمہیں یہ پسند ہیں ؟"
آتش نے آہستہ سے پوچھا مہر نے گردن ہلائی مگر آگے نہیں بڑھی شاید وہ کہنا چاہتی تھی کہ صرف دیکھنے میں مزہ آ رہا ہے خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں آتش نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں موند لیں اسے شادی کی وہ رات یاد آئی تھی جب مہر کی ٹوٹی چوڑیاں فرش پر بکھری ہوئی تھیں اس نے آہستہ سے آنکھیں کھول لیں پھر بغیر کچھ کہے اس نے مہر کا ہاتھ تھاما اور اسے دکان کے اندر لے گیا مہر حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی مگر آتش نے کچھ نہیں کہا وہ سیدھا دکاندار کے پاس گیا اور لال رنگ کی چوڑیاں اٹھا لایا
" ہاتھ آگے کرو"
آتش کی آواز مدھم اور نرم تھی مہر نے پلکیں جھپکائیں جیسے یقین نہ آ رہا ہو اور پھر دھیرے سے اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا آتش نے بہت نرمی سے اس کے نازک ہاتھوں میں چوریاں پہنانا شروع کر دیں چوڑیاں ایک ہلکی سی آواز کے ساتھ مہر کے ہاتھوں میں اترتی گئیں جیسے محبت کی کھنک گونج رہی ہو جب وہ ساری چوڑیاں پہنا چکا تو اس نے مہر کی کلائی کو ہلکے سے چھوا اور بولا
" پہلے تم میری زندگی میں آئی تو سب کچھ رنگین ہو گیا اور اب یہ چوڑیاں، تاکہ تہماری خاموشی میں بھی محبت کی آواز گونجتی رہے"
وہ بے اختیارا اسے دیکھنے لگی اس کی آنکھوں میں کیا تھا جو نہیں تھا خوشی حیرت اور محبت آتش نے اس کے چہرے پر پھیلے تاثرات دیکھے پھر ایک قدم قریب آ کر سرگوشی کی
" تمہاری ہنسی میری دنیا ہے مہر جب تم خوش رہتی ہو تب ہی میں سانس لیتا ہوں"
مہر کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر اس بار یہ آنسو خوشی کے تھے بازار کی رونق لوگوں کی باتیں، شور ،سب غائب ہو چکا تھا رہ گیا تھا تو صرف ایک لمحہ جس میں خاموش محبت بول رہی تھی
☆☆☆
ایمل اور مومنہ دونوں کالج سے نکل آئی تھی مومنہ اسے کچھ بتا رہے تھی مگر ایمل کا دھیان کہیں اور تھا اس کا فون پچھلے آدھے گھنٹے سے بج رہا تھا مگر وہ نہیں اٹھا رہی تھی اور وہ اب بھی بج رہا تھا
" کیا یار ایمل اٹھا لو فون کیا پتہ کوئی ضروری بات ہو جو وہ تم سے کرنا چاہتا ہو"
مومنہ نے بور ہو کر کہا ایمل مزید پریشان ہو گئی۔
" وہی جو وہ ہمیشہ کرتا ہے جو میں سننا نہیں چاہتی "
غصے سے اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں
" ہاں مگر سننے سے کیا پرابلم ہے تم نے خود ہی تو کہا تھا پہلے کہ اس جیسا کوئی نہیں"
مومنہ نے مسکراتے ہوئے معنی خیزی سے کہا ایمل بالکل چپ ہو گئی اسے اب محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید اس نے ایک غلط ادمی سے محبت کر لی ہے رافع کے الفاظ اس کا ایٹیٹیوڈ اور اس کی موجودگی سے اسے خطرہ محسوس ہونے لگا تھا تبھی ایک سیاہ لگثری کار ان کے سامنے آ کر رکی دونوں پہلے چونکیں پھر ایمل کا چہرہ سفید پڑ گیا
" نہیں یہ۔۔۔۔ یہ یہاں ۔۔۔کیا کر رہا ہے ؟"
ایمل نے ڈرتے ہوئے دل میں سوچا کار کا دروازہ دھیرے سے کھلا رافع اتر کر تیزی سے اس کے قریب آیا اس کا چہرہ سپاٹ اور آنکھوں میں سرد مہری تھی ایمل ایک قدم پیچھے ہٹی مگر رافع نے تیزی سے اس کا بازو پکڑ لیا اس کی گرفت اتنی سخت تھی کہ ایمل نے تڑپ کر اس کو دیکھا
" تمہاری ہمت بھی کیسی ہوئی مجھے نظر انداز کرنے کی؟ ایمی تم جانتی ہو نا کہ جب مجھے کسی چیز کی عادت پڑ جائے تو میں اسے کسی بھی حالت میں کھونا پسند نہیں کرتا "
وہ سیدھا اس کی آنکھوں میں دیکھتا غصے سے بولا ایمل نے خوف زدہ ہو کر دیکھا پھر اس نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوانا چاہا لیکن رافع کی گرفت مزید سخت ہو گئی
" یہ کوئی طریقہ ہے بات کرنے کا چھوڑو مجھے تمہیں کوئی حق نہیں ہے آئی سمجھ"
ایمل غصے سے مگر ہلکی آواز میں بولی مومنہ بت بنی کھڑی ان کو دیکھ رہی تھی
" مجھے حق بنانا اور لینا آتا ہے تمہارے
"مجھے کوئی حق نہیں" کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا"
اس کا لہجہ کٹیلا تھا مومنہ تیزی سے آگے بڑھی تبھی رافع کا ایک گارڈ اس کے سامنے آ کر رک گیا
" تم دوسری کار میں بیٹھو مجھے فلحال اس سے کچھ ضروری بات کرنی ہے"
رافع نے مومنہ کو دیکھتے ہوئے کہا مومنہ شاکڈ ہوئی اس نے پہلے ایمل کو دیکھا پھر غصے سے بولی
" یہ کیا بکواس ہے تم اس طرح ایمل کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے"
" مجھ سے بحث مت کرو مومنہ ورنہ مجھے تمہاری بھی فکر کرنی پڑے گی"
رافع نے دھیرے سے وارننگ دی تھی ایمل کا غصہ مزید بڑھ گیا اس نے اسی طرح رافع کی آنکھوں میں دیکھا
" تم اگر مجھے ڈرانا چاہ رہے ہو تو سن لو میں تم سے ڈرنے والی نہیں "
رافع تھوڑا جھک کر ایمل کے بالکل قریب آیا اس کی سانس ایمل کے کان کے بالکل قریب گزر رہی تھی
" میں تمہیں کبھی ڈرانا نہیں چاہتا میں تمہیں صرف اتنا یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تم کہاں بیلونگ کرتی ہو"
اس نے اندھیرے جیسی سرگوشی کی تھی ایمل وہیں جم گئی اس کے بعد رافع نے بنا کچھ اور کہے اسے کار میں بٹھایا اور خود تیزی سے کار نکال کر لے گیا
☆☆☆
عینی ایک کیفے کے کارنل ٹیبل پر بیٹھی اپنی کافی کی سپ لے رہی تھی اور تب ہی امان اس کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا
" ایمرجنسی میٹنگ کے لیے بلایا تھا اور یہاں میڈم کافی انجوائے کر رہی ہیں یہ کیا سین ہے بھئی "
امان نے آنکھیں چھوٹی کیں
" تمہیں کوئی ایمرجنسی نہیں لگ رہی؟ تمہارے سامنے بیٹھنا بھی ایک ایمرجنسی سے کم نہیں ہے"
عینی نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا
"مطلب تمہاری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ میں ہوں کیا بات ہے تم مجھے پہلے ہی بتا دیتی کیونکہ مجھے بہت پسند ہے لوگوں کی لائف کا ہائی لائٹ بننا "
امان مسکرایا
" تم ہائی لائٹ نہیں ہیڈچ ہو"
عینی نے بیزاری سے کہا امان آرام دا انداز میں کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا جیسے اس کے تاثرات سے مزہ لے رہا ہو
" تو پھر درد کم کرنے کا طریقہ بتا دوں؟"
عینی نے دونوں بازو باندھے
" ہاں اپنی شکل میرے سامنے مت لایا کرو"
امان نے تیزی سے سیدھا ہوتے اس کی آنکھوں میں دیکھا
" اچھا لیکن پرابلم یہ ہے کہ تم چاہو یا نہ چاہو میری شکل تمہاری زندگی کا ایک حصہ بننے والی ہے "
عینی ایک سیکنڈ کے لیے خاموش رہی پھر آنکھیں چھوٹی کر کے اس کو دیکھا
" دیکھو امان۔۔۔۔۔۔"
" دیکھ ہی تو رہا ہوں"
امان نے جھٹ سے کہا عینی نے غصے سے اس کو دیکھا
" اگر تم اپنی اوور کانفیڈنس کا علاج نہیں کروا سکتے تو مجھے بتا دو میں تمہارے لیے ڈاکٹر سجیسٹ کر دوں گی"
امان پہلے ہنسا اور پھر اس کے تاثرات ایک دم سنجیدہ ہو گئے
" میں سیریسلی کہہ رہا ہوں عینی یہ سب مذاق نہیں ہے"
عینی اس کو سنجیدہ دیکھتے خود کنفیوز ہو گئی
" مطلب ؟"
امان نے ایک گہری سانس لی پھر اپنی کرسی سے اٹھ کر سیدھا عینی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا
" اب کیا ڈرامہ ہے؟"
عینی نے چڑ کر دیکھا امان نے اپنی پاکٹ سے ایک چھوٹی سی ڈبی نکالی عینی نے حیرت سے اس کو دیکھا
" امان یہ کیا ؟"
امان نے باکس کھولا اندر ایک انگوٹھی چمک رہی تھی پورے کیفے میں لوگ اب ان کی طرف دیکھ رہے تھے
" ایمرجنسی یہ تھی تم سے شادی کرنی ہے اور رشتہ لے کر آ بھی رہا ہوں سو بیٹر بی ریڈی "
عینی مزید حیران ہوئی
" امان تم۔۔۔۔ تم پاگل ہو"
عینی نے غصے اور بوکھلاہٹ سے کہا
" تھوڑا بہت لیکن تمہارے بنا رہنے کا سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے مجھے اصلیت میں پاگل ہو جانا چاہیے"
امان نے جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا عینی حیرت اور شرمندگی کے بیچ پھنس چکی تھی کیفے میں لوگ ہنسی چھپا رہے تھے
" یہ سب ادھر کرنے کی کیا ضرورت تھی امان ؟"
اس نے غصہ دبایا
" تاکہ تم بھاگو نہیں، اب تو سب کو پتہ چل چکا ہے تو اب تم منع نہیں کر سکتی "
امان نے آنکھ ماری اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی عینی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا لیکن امان کے جاتے ہی اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ پھیل گئی
☆☆☆
وہ کافی کا مگ اٹھائے سیدھا آتش کے پاس گئی جو سٹڈی روم میں بیٹھا ہے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا مہر کی آنکھوں میں شرارت چمکی تھی اس نے دھیرے سے مانگ اس کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا جیسے ہی آتش نے پیا اس کے چہرے کے زاویے بگڑ گئے
" مہر واپس آو"
اس نے غصے سے مگ ٹیبل پر رکھ دیا مہر جو دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی ایک دم رکی پلٹ کر دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کیا ہوا آتش نے غصے سے اس کی طرف قدم بڑھا دیے
" جو کچھ تم کر رہی ہو نا اس کی اب سزا ملے گی "
آتش نے غصے سے اس کو دیکھا اس کی کافی نمکین تھی مہر کی چھپی ہوئی مسکراہٹ غائب ہو گئی اس نے ڈائری میں لکھا
" کیسی سزا ؟"
آتش بے اختیار مسکرایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا
" میری محبت کی سزا آج صرف میری آنکھوں میں دیکھو بنا پلک جھپکائے"
اس نے دھیرے سے کہا مہر نے سٹپٹا کر اس کو دیکھا تبھی آتش نے تھوڑی سی پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا
" کیوں شرارتیں کرنے کا شوق ہے مگر سزا برداشت نہیں ہوتی"
مہر شرارت سے مسکرائی اور پھر اس نے ڈائری میں لکھا
" اگر یہ سزا ہے تو مجھے زندگی بھر قبول ہے"
آتش بے اختیار ہنس دیا
" بیوقوف لڑکی تم میری جان ہو کیا میں اپنی جان کو سزا دے سکتا ہوں "
مہر نے پھر ڈائری میں لکھا
" آپ کے بنا جان رہ بھی تو نہیں سکتی نہ"
مہر نے اب کی بار سیدھا اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا بنا پلک جھپکائے ابھی آتش کچھ کرتا اس کا فون بج اٹھا مہر نے نمبر دیکھا کسی لڑکی کے نام سے سیو تھا اس کے ماتھے پر بل پڑے بات کرنے کے بعد آتش نے پھر سے اس کو دیکھا جو منہ پھلائے ڈائری میں کچھ لکھ رہی تھی
" آپ نے اس سے اتنی دیر بعد کیوں کی"
آتش کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی کیونکہ مہر نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ کس لڑکی سے بات کر رہا تھا
" تم جیلس ہو رہی ہو مہر "
مہر نے نفی میں سر ہلایا
" تو پھر تمہاری آنکھوں میں اتنی آگ کیوں ہے"
دھیرے سے جھکتے اس نے مہر کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا مہر نے غصے سے تالی بجائی جیسے کہہ رہی ہو اب بھی پوچھ رہے ہو کمال کر دیا آتش ہنسا
" تمہاری یہ بے زبان چختی چیختی محبت مجھے پاگل بنا دیتی ہے مہر "
مہر نے ڈائری اٹھا کر لکھا
" اگر میں بول سکتی تو کہہ دیتی کہ آپ صرف میرے ہیں"
آتش نے اس کی ڈائری اس کے ہاتھوں سے کھینچ لی اور اس میں لکھا
" اور میں بول سکتا ہوں کہ مہر صرف میری ہے "
مہر کے گال ہلکے سے سرخ ہوئے آتش نے اس کے ہاتھ پر بھی لکھ دیا پھر دھیرے سے اس کی انگلیوں کو چھوا مہر نے پہلے اس کو دیکھا پھر کچھ سوچ کر ڈائری میں لکھا
" تمہیں مجھ سے نفرت ہے نہ آتش؟"
اسے آج بھی اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ آتش اس سے محبت کرنے لگا ہے آتش نے پہلے ان لفظوں کو پھر مہر کو دیکھا اس کی گہری بھوری آنکھوں میں مہر کا عکس گم ہو رہا تھا
" نفرت ؟ مہر تم میری سب سے خوبصورت بربادی ہو "
اس نے سرگوشی کی تھی مہر نے پھر ڈائری میں لکھا
"مجھے تمہاری محبت نہیں چاہیے آتش مجھے بس تم چاہیے "
آتش دھیرے سے مسکرا دیا
" محبت ہو یا میں فرق صرف الفاظ کا ہے مہر ، تمہارے لیے دونوں ایک ہی ہیں"
اس نے دھیرے سے ڈائری لے لی تھی
☆☆☆
ایمل نے کار کا دروازہ زور سے بند ہوتے سنا اس کا دل بند ہونے لگا اس نے غصے سے رافع کی طرف دیکھا جس نے ایک دفعہ بھی اس کی طرف نہیں دیکھا تھا بلکہ وہ ریش ڈرائیو کرتا سامنے دیکھ رہا تھا
" یہ تم کیا کر رہے ہو کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے"
اس نے غصے سے کہا رافع مسکرایا مگر اس کی طرف اب بھی نہیں دیکھا
" جہاں تمہیں ہونا چاہیے"
ایمل پریشان ہو گئی اس کا صبر جواب دے گیا
" مجھے میرے گھر ڈراپ کرنا جہاں مجھے ہونا چاہیے"
ایمل نے اپنے لفظوں پر زور دیا مگر رافع نے کوئی جواب نہیں دیا اس کی گاڑی ایک پینٹ ہاؤس کے سامنے رکی تھی تیزی سے اتر کر اس نے ایمل کی طرف کا دروازہ کھولا اور بازوں سے پکڑ کر اسے باہر نکالا
" چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ مجھے اپنے گھر واپس جانا ہے"
" تمہیں واقعی لگتا ہے کہ میں تمہیں واپس بھیج دوں گا "
وہ ایک پرائیویٹ پینٹ ہاؤس تھا ہائی رائس بلڈنگ کا ٹاپ فلور جہاں سے صرف رافع کی حکومت چلتی تھی پینٹ ہاؤس کا انٹیرئر لگثری تھا مگر اس وقت اس جگہ کا ہر کونہ ایمل کے لیے ایک قید جیسا محسوس ہو رہا تھا روم میں داخل ہوتے ہی اس نے ایمل کا بازو چھوڑ دیا وہ خوف زدہ سی چاروں طرف دیکھ رہی تھی اس کے پیچھے قدموں کی آواز بڑھتی گئی اور جیسے ہی اس نے مڑ کر دیکھا رافع نے دروازہ لاک کر دیا
" یہ۔۔۔۔ یہ کیا ؟"
ایمل نے ہلکی سی چیخ ماری رافع نے ایک بھی لفظ کہے بغیر اس کی طرف قدم بڑھا دیے ایمل پیچھے ہٹی لیکن پیچھے دیوار تھی اب کوئی راستہ نہیں بچا تھا
" مجھے گھر جانا ہے"
ایمل نے سانس روک کر اسے دیکھا اس کی آواز ہلکی سی کانپی تھی رافع نے معصومیت سے سر جھکایا جیسے کچھ سوچ رہا ہو پھر ایک دم سے اس کا چہرہ ایمل کے اتنے قریب آیا کہ ایمل نے آنکھیں میچ لیں
" کال کیوں نہیں اٹھائی ؟"
اس کی آنکھوں میں شعلے سے تھے
" مجھے تم سے بات نہیں کرنی تھی"
ایمل نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں رافع ہلکا سا ہنسا
" تمہیں لگتا ہے تم مجھے اوائڈ کر سکتی ہو؟"
آہستہ سے جھکتے اس نے ایمل کی ٹھوڑی اٹھائی
" تم سچ میں اتنی بے وقوف ہو یا مجھے سمجھتی ہو ؟"
" میں بس۔۔۔۔ میں بس اب تم سے دور رہنا چاہتی ہوں"
ایمل ہکلائی رافع نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اب دونوں کے درمیان صرف سانس کا فاصلہ تھا
" تم سے کس نے کہا کہ تم مجھ سے دور رہ سکتی ہو"
اس کا لہجہ اتنا ٹھہرا ہوا تھا کہ ایمل کے رونگٹے کھڑے ہو گئے
" میں تمہاری کوئی پراپرٹی نہیں ہوں "
اس نے تیزی سے رافع کا ہاتھ ہٹایا رافع کا غصہ ایک پل کے لیے تھم گیا اس نے ایمل کی آنکھوں میں دیکھا پھر دھیرے سے جھک کر اس کے کان کے بالکل قریب آگیا
" تمہیں لگتا ہے کہ تم مجھ سے دور ہو "
ہاتھ اٹھا کر اس کے گال پر انگلی رکھی ایمل کو جھٹکا سا لگا اس نے تیزی سے رافع کو پیچھے دھکا دیا وہ ایک قدم پیچھے ہوا تھا
" دور رہو مجھ سے"
وہ تیز سانسوں کے ساتھ چلائی رافع نے لب بھینچ لیے تیزی سے آگے بڑھ کر اس نے ایمل کو کندھوں سے پکڑ کر جھٹکا دیا
" میں وارننگ نہیں دیتا جو چاہیے وہ لے لیتا ہوں "
اس نے ایمل کا چہرہ پکڑ کر اونچا کیا اس طرح کے ایمل اس کی آنکھوں میں دیکھنے کے لیے مجبور ہو گئی اس کی آنکھوں میں ڈر اور خوف دونوں تھے
" اور تمہیں کیا لگتا ہے تم میری مرضی کے بنا دور رہ سکتی ہو ہاں ؟"
ایمل نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری گھبراہٹ اس کے ہر انداز سے ظاہر ہو رہی تھی رافع دھیرے سے جھکا لیکن اتنا کہ صرف ایمل کو محسوس ہو کہ وہ اس کے بہت نزدیک ہے اس کا ہر سانس محسوس کر سکے وہ اسے ڈرا رہا تھا اور وہ مزید ڈر رہی تھی تب ایک دم سے رافع نے اس کے بالوں کو تھوڑا سا پکڑ کر سر تھوڑا اور پیچھے جھکا دیا تا کہ وہ بنا کوشش کے اس کو دیکھ سکے
" تم میری ہو ایمل چاہو یا نہ چاہو سمجھو یا نہ سمجھو لیکن یہ بات تمہاری رگوں میں اترنی چاہیے کہ رافع شاہ جس چیز پر اپنا حق سمجھتا ہے اسے کوئی چھین نہیں سکتا"
اس کے ہونٹ ایمل کے کان کے قریب سرگوشی کر رہے تھے ایمل کو لگا اس کا دل یا تو بند ہو جائے گا یا پھٹ جائے گا رافع نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونے کا احساس چھوڑنے کے لیے لب رکھ دیے اس کے لمس میں ایک وارننگ تھی ایک دھمکی تھی ایمل کی آنکھوں میں نمی آگئی اس کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا رافع دھیرے سے پیچھے ہٹا لیکن اس کی مسکراہٹ اب بھی خطرناک تھی
" اگلی بار مجھے نظر انداز کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا ایمی، میں صرف خود پر کنٹرول کرنا جانتا ہوں مگر جب بات تمہاری ہو تو۔۔۔۔ شاید کبھی نہیں "
ایمل بالکل خاموش کھڑی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے رافع کو احساس ہوا اس نے کچھ زیادہ ہی کر دیا ہے
" جاؤ "
اس نے دھیرے سے کہا ایمل کی آنکھوں میں حیرانی آئی
" کک ۔۔۔۔۔ کیا ؟"
رافع نے آہستہ سے دروازے کا لاک کھولا
" جاؤ ورنہ میں اپنا فیصلہ بدل لوں گا "
ایک سیکنڈ بھی ضائع کیے بغیر ایمل بھاگ کر باہر نکلی تھی جہاں مومنہ باہر گاڑی میں اس کا انتظار کر رہی تھی اس نے تیزی سے آنسو صاف کیے لیکن اس کے دل کی دھڑکن اب بھی رافع کی محبت میں قید تھی۔
Continue.....
قسط پڑھنے کے بعد میرا ناول کلیکشن میں ضرور شامل کیجئے گا میرا ناول آپ کی رائے کا منتظر ہے۔
Subha ka manzar khubsurat tha—sooraj ki roshni, halki thandi hawa, aur parindon ki chahchahat sab kuch ek nayi umeed ka paighaam de rahe the. Meher aaine ke samne khadi thi, uski aankhon mein ek nayi chamak thi, jaise zindagi wapas uske andar daakhil ho chuki ho. Ab wo udaas aur bejaan nahi lag rahi thi—kyunki ab Atish uska tha. Uski khamoshi mein bhi ab ek khushi ka rang tha.
Atish ne peechhe se aakar kaha: "Chalo aaj kahin bahar chalte hain" — Meher ne turant haan keh di. Dono saath nikal gaye. Raaste mein Meher sirf Atish ko dekh rahi thi, jaise sab kuch uski wujood se mukammal ho. Jab usne gol gappay dekhe, toh uski aankhon mein chamak aa gayi. Atish ne halke se muskara kar bola: "Yeh sab bhi karna padega", aur phir gol gappay order kiye. Jab Meher ne zabardasti uske munh tak gol gappa le jaaya, Atish ne kha liya, lekin turant paani maangne laga. Meher uski haalat dekh kar hansne lagi, aur uski hansi ne Atish ka dil jeet liya.
Bazaar mein ghoomte waqt Meher har cheez mein dilchaspi le rahi thi, magar Atish ne mehsoos kiya ke wo sirf lamhaat jeena chahti hai. Phir wo aik churi ki dukan ke samne ruk gayi—uski aankhon mein rang barse. Atish ne dekha aur bina kuch kahe uska haath pakar kar andar le gaya. Meher hairaan thi. Atish ne laal churiyaan uthai aur kaha: "Haath aage karo" — Meher ne dheere se haath aage kiya. Jab Atish uske haathon mein churiyaan pehna raha tha, toh wo awaaz jaise mohabbat ki khanak thi. Usne kaha:
"Pehle tum meri zindagi mein aayi toh sab kuch rangeen ho gaya, aur ab yeh churiyaan, taake tumhari khamoshi mein bhi mohabbat ki awaaz ghoonjti rahe."
Phir ek aur lamha aaya jab Atish ne uske kaan ke paas jhuk kar kaha:
"Tumhari hansi meri duniya hai Meher, jab tum khush rehti ho tab hi mein saans leta hoon."
Meher ki aankhon mein khushi ke aansu aa gaye—bazaar ka shor, log, sab kuch us waqt gayab ho gaya—sirf woh dono aur unki khamosh mohabbat reh gayi.
Dusri taraf, Emal aur Momina college se nikal rahi thi. Emal ka phone bar bar baj raha tha magar wo uthaa nahi rahi thi. Jab Momina ne kaha ke utha lo, toh Emal ne gusse se kaha ke "Jo mein sun'na nahi chahti, wo hi keh raha hai." Us waqt ek siyah luxury car unke samne ruki—Raafay utar ke seedha Emal ke paas aaya, aur uska bazu pakar liya. Uski aankhon mein ghussa aur lehje mein dhamki thi.
"Tumhari himmat kaise hui mujhe ignore karne ki?"
Emal ne bazu chhudwane ki koshish ki, lekin Raafay ne aur zor se pakar liya. Jab Emal ne kaha "Tumhe koi haq nahi", toh Raafay ne kaha:
"Haq lena mujhe aata hai"
Momina ne beech mein aana chaha lekin Raafay ke guard ne usay roka. Raafay ne Momina se kaha ke "Dusri car mein jao, mujhe Emal se zaroori baat karni hai". Jab Emal ne cheekh kar kaha "Mein tumse nahi darti", Raafay uske kaan ke paas aake dheere se bola:
"Mein tumhein sirf yaad dila raha hoon ke tum kahaan belong karti ho."
Aur phir wo Aimal ko car mein bitha kar le gaya, jabke Emal jaisi jam gayi thi.